12
1-2 نباط کا بیٹا یربعام ابھی تک مصر میں تھا جہاں وہ سلیمان سے بھا گ کر گیا تھا جب اس نے سلیمان کی موت کے متعلق سنا تو وہ اپنے شہر یریدا کو واپس ہوا جو افرائیم کی پہاڑی پر ہے۔ بادشاہ سلیمان مر گیا اور اپنے باپ دادا کے ساتھ دفن ہوا۔ اس کے بعد اسکا بیٹا رحبعام نیا بادشاہ ہوا۔
سبھی بنی اسرائیل سکم کو چلے گئے۔ وہ رحبعام کو بادشاہ بنانے گئے۔ رحبعام بھی سکم کو بادشاہ بننے کے لئے گیا۔ لوگوں نے رحبعام سے کہا۔ “ تمہارے باپ نے ہم پر زبردستی کی کہ ہم سخت محنت کریں۔ اب ہمارے لئے اس کو آسان کرو۔ اس سخت کام کو روک دو جسے تمہارے باپ نے ہمیں کرنے کے لئے مجبور کیا تھا۔ تب ہم تمہاری خدمت کریں گے۔”
رحُبعام نے جواب دیا ، “تین دن میں میرے پاس آؤ میں تمہیں جواب دونگا۔” اس لئے لوگ نکل گئے۔
وہاں کچھ عمر رسیدہ آدمی تھے جنہوں نے سلیمان جب زندہ تھا فیصلہ کرنے میں اس کی مدد کی تھی۔ اس لئے رحُبعام نے ان آدمیوں سے پوچھا اس کو کیا کرنا چاہئے۔ اُس نے پوچھا ، “تم کیا سوچتے ہو کہ مجھے لوگوں کو کیا جواب دینا چاہئے ؟”
بزر گوں نے جواب دیا ، “اگر آج تم ان کے خادم کی طرح رہو گے تو وہ تمہاری سچی خدمت کریں گے اگر تم ان سے مہر بانی سے بات کرو گے تو وہ تمہارے لئے ہمیشہ کام کریں گے۔”
لیکن رحُبعام نے نصیحت نہیں سنی۔ اس نے نوجوان آدمیوں سے پو چھا جو اس کے دوست تھے۔ رحبعام نے کہا ، “لوگوں نے کہا ہے کہ انہیں میرے باپ کے دیئے ہو ئے کام سے آسان کام دیا جا ئے۔ تم کیا سوچتے ہو مجھے ان لوگوں کو کا کیا جواب دینا چا ہئے ؟” مجھے انہیں کیا کہنا ہو گا ؟”
10 بادشاہ کے نوجوان دوستوں نے کہا ، “وہ لوگ تمہا رے پاس آئے اور بولے تمہا را باپ ہم لوگوں پردباؤڈا لا کہ ہم سخت محنت کریں اب ہمارا کام آسان کرو۔ اس لئے تم ان سے کہو ، ’میری چھو ٹی انگلی میرے باپ کے سارے جسم سے زیادہ طاقتور ہے۔ 11 میرے باپ نے تم پر دباؤ ڈا لا کہ تم سخت محنت کرو لیکن میں تمہیں اور زیادہ سخت محنت کرنے کو کہتا ہوں میرے باپ نے تم سے کام لینے کے لئے کوڑا استعمال کیا تھا۔ میں تمہیں زخمی کرنے کے لئے اُن کوڑوں سے ماروں گا جن میں خاردار لو ہے کے ٹکڑے لگے ہو ں گے۔”
12 رحُبعام نے لوگوں سے تین دن میں واپس آنے کو کہا تھا اس لئے تین دن کے بعد تمام بنی اسرا ئیل رحُبعام کے پاس آئے۔ 13 اس وقت بادشاہ رحُبعام ان سے سخت الفاظ میں بولا اور اس نے بزرگوں کی نصیحت کو نہیں سنا۔ 14 اس کے دوستوں نے جو اس کو کہا وہی کیا۔ رحُبعام نے کہا ، “میرے باپ نے تم کو سخت محنت کرنے کے لئے دباؤڈا لا اس لئے میں تمہیں اور زیادہ کام دیتا ہوں۔ میرا باپ کام کرنے کے لئے کو ڑے کا استعمال کرتے ہو ئے دباؤدڈا لا۔ میں تمہیں ایسے کو ڑے ماروں گا جس میں تمہیں گھائل کرنے کے لئے دھات کے تیز ٹکڑے ہوں گے۔” 15 اس طرح بادشاہ نے لوگوں کے چاہنے کے مطابق نہیں کیا۔ خداوند نے اپنی چاہت کو پورا کرنے کے لئے ایسا کیا جو اس نے نباط کے بیٹے یربعام کے ساتھ کی تھی۔ خداوند نے اخیاہ نبی کو وعدہ پورا کرنے کے لئے استعمال کیا۔ اخیاہ شیلاہ کا رہنے وا لا تھا۔
16 سبھی بنی اسرا ئیلیوں نے دیکھا کہ نیا بادشاہ ان کی بات سننے سے انکار کیا۔ اس لئے لوگوں نے بادشاہ سے کہا ،
 
“کیا ہم داؤد کے خاندان کا حصہ ہیں ؟” نہیں!
کیا ہم یسّی کی زمین میں کو ئی حصّہ پا تے ہیں ؟” نہیں!
اس لئے اسرائیلیو چلو اپنے گھر چلیں۔”
 
اس طرح بنی اسرا ئیل گھر چلے گئے۔ 17 لیکن رحُبعام ابھی بھی اسرا ئیلیوں پر حکومت کی جو یہوداہ کے شہروں میں تھے۔
18 ادونی رام نامی ایک آدمی تمام ملازموں کا نگراں کار تھا۔ بادشاہ رحُبعام نے ادونی رام کو لوگوں سے بات کرنے کے لئے بھیجا۔ لیکن بنی اسرا ئیلیوں نے اس پر پتھر پھینکے یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ بادشاہ رحُبعام اپنی رتھ کی طرف بھا گا اور یروشلم فرار ہو گیا۔ 19 اس وجہ سے اسرا ئیلی داؤد کے خاندانوں کے خلاف ہو گئے اور ابھی تک آج بھی وہ داؤد کے خاندان کے خلاف ہیں۔
20 سبھی بنی اسرا ئیلیوں نے سنا کہ یرُ بعام واپس آچکا ہے ا س لئے انہوں نے اس کو مجلس میں بلا یا اور اس کو تمام اسرا ئیل پر بادشاہ بنا یا یہوداہ کا خاندانی گروہ ہی ایک ایسا گروہ تھا جس نے داؤد کے خاندان کے مطابق چلنے کو جاری رکھا۔
21 رحُبعام واپس یروشلم گیا وہ یہودا ہ کے خاندانوں اور بنیمین کے خاندانی گروہ کو ایک ساتھ جمع کیا۔ یہ ۱۸۰۰۰ آدمیوں کی فوج تھی۔رحُبعام بنی اسرا ئیلیوں کے خلاف لڑنا چا ہا وہ اپنی بادشاہت واپس لینا چا ہتا تھا۔ 22 لیکن خداوند نے خدا کے ایک آدمی سے بات کی۔ اس کا نام سمعیاہ تھا۔ خداوند نے کہا ، 23 “سلیمان کے بیٹے رحُبعام جو یہوداہ کا بادشاہ ہے اور تمام یہوداہ اور بنیمین کے لوگوں سے بات کرو۔ 24 ان سے کہو ، ’ خداوند کہتا ہے تمہیں اپنے بھا ئیوں کے خلاف جنگ پر نہیں جانا چا ہئے تم میں سے ہر ایک کو گھر لوٹ جانا ہو گا میں نے ہی ان واقعات کو ہو نے دیا۔” اس لئے رحُبعام کی فوج کے آدمیوں نے خداوند کے احکامات کی اطاعت کی وہ سب واپس گھر گئے۔
25 سِکم پہاڑی ملک افرائیم کا ایک شہر تھا۔ یُربعام نے سِکم کو ایک طاقتور شہر بنایا اور وہاں رہے اس کے بعد وہ شہر فنوایل گیا اور اس کو طاقتور بنایا۔
26-27 یر بعام نے خود سے کہا ، “اگر لوگ خدا وند کے گھر کو یروشلم میں جاتے رہیں تو پھر وہ چاہیں گے کہ داؤد کا خاندان ان پر حکومت کرے۔ لوگ دوبارہ رحُبعام یہوداہ کے بادشاہ کے کہنے پر چلیں گے۔ پھر وہ مجھے مارڈالیں گے۔” 28 اس لئے بادشاہ نے اس کے مشیروں سے پوچھا کہ اس کو کیا کرنا ہوگا ؟ انہوں نے اس کو مشورہ دیا اِس لئے کہ یُربعام نے سو نے کے دو بچھڑے بنوایا۔ بادشاہ یربعام نے لوگوں سے کہا ، “تمہیں یروشلم کو عبادت کے لئے نہیں جانا چاہئے اے اسرائیلیو! یہی سب دیوتائیں ہیں جو تمہیں مصر سے باہر لائے۔” 29 بادشاہ یُر بعام ایک سونے کا بچھڑا بیت ایل میں رکھا۔ اس نے دوسرا سونے کا بچھڑا شہر دان میں رکھا۔ 30 لیکن یہ بہت بڑا گناہ تھا۔ بنی اسرائیلیوں نے بیت ایل اور دان کے شہروں میں بچھڑوں کی پرستش کر نے کے لئے سفر کئے لیکن یہ بہت بڑا گناہ تھا۔
31 یربعام نے بھی اعلیٰ جگہوں پر ہیکل بنوایا۔ اس نے بھی کاہنوں کو اِسرائیل کے مختلف خاندانی گروہوں سے چنا ( اس نے ان کاہنوں کو بھی چنا جو کہ لاوی خاندانی گروہ سے نہیں تھے۔) 32 اور بادشاہ یُربعام نے ایک نئی تعطیل شروع کی۔ یہ تعطیل یہوداہ کے فسح کی تقریب کی مانند تھی۔ لیکن یہ تعطیل آٹھویں مہینے کے پندرھویں دن تھی۔پہلے مہینے کے پندرہویں دن نہیں تھی۔ اس زمانے میں بادشاہ شہر بیت ایل میں قربان گاہ پر نذرانہ پیش کرتا تھا۔اور وہ قربانی ان بچھڑوں کے لئے دیا کرتا تھا جو اس نے بنوائے تھے۔ بادشاہ یُربعام بھی بیت ایل میں کاہنوں کو اعلیٰ جگہوں پر خدمت کرنے کے لئے چُنا جو اس نے بنوائے تھے۔ 33 اِس لئے بادشاہ یُربعام اس کا اپنا وقت تعطیل کے لئے مقرر کیا اسرائیلیوں کے لئے یہ آٹھویں مہینہ کاپندرہواں دن تھا۔ اس عرصہ میں وہ قربانیاں پیش کیں اور قربان گاہ میں خوشبوئیں جلاتا جو اس نے بنائی تھی۔ یہ شہر بیت ایل میں تھی۔
2:28+اس2:28کا مطلب ہے وہ رحم کی بھیک مانگتا ہے – قانون کہتا ہے اگر کوئی شخص مقدس جگہ دوڑ کر جاتا ہے اور قربان گاہ کے کونے پکڑ لے تو اس کو سزا نہیں دی جائے گی۔3:4+جھوٹے3:4خداؤں کی پرستش کا مقام۔4:22-23+۶۶۰۰4:22-23لیٹر4:22-23+۱۳۲۰۰4:22-23لیٹر6:1+تقریباً6:1۹۶۰ قبل مسیح۔8:4+لاوی8:4کے خاندانی گروہ کے لوگ۔ انہوں نے خدا کے گھر میں کاہنوں کی مدد کی اور حکومت کے انتظام کا بھی کام کئے-