10
(متّی ۱۹: ۱۔ ۱۲)
1 تب یسوع اس جگہ سے روانہ ہو کریہوداہ کے علا قے میں اور پھر دریائے یر دن کے اس پار گئے۔ لوگو ں کی ایک بھیڑ دوبا رہ اس کے پاس آ ئی اور یسوع ان کو ہمیشہ کی طرح تعلیم دینے لگے۔
2 چند فریسی یسوع کے پاس آ ئے اور اس کو آز ما نے لگے اور پوچھا ، “کیا کسی کا اپنی بیوی کو طلاق دینا صحیح ہے؟”
3 یسوع نے جواب دیا، “موسیٰ نے تمہیں کیا حکم دیا ہے؟”
4 فریسیوں نے جواب دیا، “موسیٰ نے کہا ہے کہ اگر کو ئی شخص اپنی بیوی کو طلا ق دینا چاہے تو وہ اپنی بیوی کو طلاق نا مہ لکھ کر طلاق دے سکتا ہے۔”
5 یسوع نے کہا، “خدا کی تعلیمات کو قبول کر نے کی بجا ئے انکار کر نے سے موسیٰ نے تم کو وہ حکم دیا ہے۔
6 جب خدا نے دنیا کو پیدا کیا تو انسانوں کو مرد اور عورت کی شکل میں پیدا کیا،۔+ 10:6 اِقتِباس پیدائش ۲۷:۱
7 اسی وجہ سے مرد نے اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر عورت کو اپنا رفیق حیات بنایا۔
8 پھر وہ دونوں ایک بن گئے۔+ 10:8 اِقتِباس پیدائش ۲۴:۲ جس کی وجہ سے وہ دونوں الگ نہیں بلکہ ایک ہوتے ہیں۔
9 اس طرح جب خدا نے ان دونوں کو ملا یا ہے تو کوئی بھی انسان ان میں جدائی نہ ڈا لے۔”
10 یسوع اور ان کے شاگرد جب گھر میں تھے شاگردوں نے طلاق کے مسئلہ پر یسوع سے دوبارہ پوچھا۔
11 یسوع نے انکو جواب دیا “جو اپنی بیوی کو چھوڑ کر دوسری عورت سے شادی کرے تو اپنی بیوی کے خلاف زنا کا مرتکب ہو تا ہے۔
12 اور کہا کہ ایک عورت جو اپنے شوہرکو طلاق دے اور دوسرے مرد سے شادی کرے تو وہ بھی حرام کاری کی قصور وار ہوگی-”
( متّی ۱۹: ۱۳۔۱۵؛لوقا۱۸:۱۵۔۱۷)
13 لوگ اپنے چھوٹے بچوں کو یسوع کے پاس لائے یسوع نے ان کو چھوا لیکن شاگردوں نے یہ کہتے ہوئے لوگوں کو ڈانٹ دیا کہ وہ اپنے بچوں کو نہ لے آئیں۔
14 یہ دیکھتے ہوئے یسوع نے غصّہ سے ان سے کہا، “چھوٹے بچوں کو میرے پاس آنے دو اور ان کو مت روکو کیوں کہ خدا کی سلطنت ان لوگوں کی ہے جو ان بچوں کی مانند ہیں۔
15 میں تم سے سچ کہتا ہوں تم خدا کی بادشاہی کو بچے کی طرح قبول نہ کرو گے تو تم اس میں کبھی داخل نہ ہو سکو گے۔”
16 تب یسوع نے ان بچوں کو اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر گلے لگایا اور ان کے اوپر اپنا ہاتھ رکھ کر ان کو دعائیں دیں۔
(متّی۱۹:۱۶۔۳۰ ؛لوقا ۱۸:۱۸۔۳۰)
17 یسوع وہاں سے نکلنا چاہتے تھے لیکن اتنے میں ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا اور اسکے سامنے اپنے گھٹنے ٹیک دیئے اس شخص نے کہا، “اے اچھے استاد ،ابدی زندگی پا نے کے لئے مجھے کیا کر نا چاہئے؟”
18 یہ سن کر یسوع نے کہا، “تو مجھے نیک آدمی کہہ کر کیوں بلاتاہے؟ کوئی آدمی نیک نہیں صرف خدا ہی نیک ہے۔
19 اگر تو ابدی زندگی چاہتا ہے تو جو تم جانتے ہو اس کی پیروی کرو تجھے تو احکا مات کا علم ہوگا۔ قتل نہ کر ، زنا نہ کر ، چوری نہ کر ، جھوٹ بولنے سے بچ ،اور کسی آدمی کو دھوکہ نہ دے اور تو اپنے والدین کی تعظیم کر-”
20 اس نے جواب دیا، “اے استاد! میں تو بچپن ہی سے ان احکامات کی پابندی کر رہا ہوں”۔
21 یسوع نے اس آدمی کو محبت بھری نظروں سے دیکھا اور کہا ، “تجھے ایک کام کرنا ہے۔ جا اور تیری ساری جائیداد کو بیچ دے اور اس سے ملنے والی پوری رقم کو غریبوں میں بانٹ دے آسمان میں اسکا اچھا بدلہ ملے گا پھر اس کے بعد آکر میری پیروی کرنا”۔
22 یسوع کی یہ باتیں سن کر اس کے چہرے پر مایو سی چھا گئی اور وہ شخص مایوس ہو کر چلا گیا۔ کیوں کہ وہ بہت مالدار تھا اور اپنی جائیداد کو قائم رکھنا چاہتا تھا۔
23 تب یسوع نے اپنے شاگردوں کی طرف دیکھ کر کہا ، “مالدار آدمی کو خدا کی سلطنت میں داخل ہو نا بہت مشکل ہے۔”
24 یسوع کی یہ باتیں سن کر ان کے شاگرد چونک پڑے۔ لیکن یسوع نے دو بارہ کہا ، “میرے بچو! خدا کی سلطنت میں داخل ہونا بہت مشکل ہے۔
25 ایک اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے پار ہونا آسان ہے بنسبت اس امیر آدمی کے کہ جو خدا کی سلطنت میں داخل ہو۔”
26 شاگرد مزید چوکنا ہوکر ایک دوسرے سے کہنے لگے، “پھر کون بچا ئے جائینگے؟”
27 یسوع نے شاگردوں کی طرف دیکھ کر کہا، “یہ بات تو انسانوں کے لئے مشکل ہے لیکن خدا کے لئے نہیں خدا کے لئے ہر چیز ممکن ہے۔”
28 پطرس نے یسوع سے کہا ،“تیرے پیچھے چلنے کے لئے ہم نے تو سب کچھ قربان کردیا ہے!”
29 یسوع نے کہا، “میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو شخص میری خا طر اور خوشخبری کے لئے اپنا گھر یا بھا ئی یابہن یا ماں باپ یا بچے یا زمین کو قربان کردیا تو۔
30 وہ سو گنا زیادہ اجر پائیگا۔ اس دنیا کی زندگی میں وہ شخص کئی گھروں کو بھائیوں کو بہنوں کو ،ماؤں کو ، بچوں کو اور زمین کے ٹکڑوں کو پائیگا۔مگر ظلم و زیادتی کے ساتھ۔ اس کے علاوہ آنے والی دنیا میں ہمیشہ کی زندگی کو پائیگا۔
31 اور پھر کہا کہ وہ بہت سے لوگ کہ جو پہلے والوں میں ہیں۔ وہ بعد والوں میں ہو جائیں گے اور جو بعد والوں میں ہیں وہ پہلے والوں میں ہو نگے”۔
(متی ۲۰ :۱۷۔۱۹؛ لوقا۱۸:۳۱۔۳۴)
32 یسوع اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ تھے یروشلم کو جا رہے تھے یسوع انکی نمائندگی کر رہے تھے۔ ان کے شاگرد حیران و پریشان تھے۔ اور جو لوگ ان کے پیچھے آرہے تھے وہ بھی خوف زدہ تھے۔یسوع نے اپنے بارہ رسو لوں کو دوبارہ اکٹھا کیا ان سے تنہا ئی میں بات کی۔یسوع نے یروشلم میں اپنے ساتھ پیش آ نے والے واقعات کے بارے میں سنانا شروع کیا۔
33 “ہم یروشلم جا رہے ہیں۔ ابن آدم کو کاہنوں کے رہنما اور معلّمین شریعت کے حوالے کیا جائے گا۔ وہ اس کو موت کی سزا دے کر قتل کرینگے اور اس کو غیر یہودیوں کے حوالے کریں گے۔
34 وہ لوگ اس کو دیکھ کر اس کا مذاق اڑا ئینگے اور اس پر تھو کیں گے اور اس کو چا بک سے ماریں گے پھر اس کو قتل کریں گے۔ لیکن وہ تیسرے ہی دن پھر جی اٹھے گا۔”
(متّی ۲۰:۲۰۔۲۸ )
35 پھر زبدی کے بیٹے یعقوب اور یوحنا دونوں یسوع کے پاس آئے اور کہا، “اے استاد! ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہماری گزارش پوری کریں ۔”
36 یسوع نے پوچھا ، “تمہاری کونسی خواہش مجھ کو پوری کرنی چاہئے ؟”
37 ان دونوں نے جواب دیا “جب تو اپنی سلطنت میں جلال کے ساتھ رہے گا تو ہم دونوں میں سے ایک کو اپنے دائیں ہاتھ کی طرف اور دوسرے کو اپنے بائیں ہاتھ کی طرف بٹھا نے کی مہر بانی کر نا”۔
38 یسوع نے ان سے کہا تم نہیں جانتے ، “تم کیا پوچھ رہے ہو ؟ کیا تم وہ مصائب دکھ اٹھا سکتے ہو جو میں نے اٹھا ئے ہیں ؟ میں جس بپتسمہ کو لینے والا ہوں کیا تمہارے لئے اس بپتسمہ کا لینا ممکن ہو سکیگا”؟۔
39 انہوں نے جواب دیا، “ہاں ہمارے لئے ممکن ہے” یسوع نے ان سے کہا، “تم بھی اسی طرح دکھ اٹھا ؤگے جس طرح میں اٹھا نے جا رہا ہوں مجھے جو بپتسمہ لینا ہے کیا وہ تم لوگے ؟
40 میرے دائیں اور بائیں جانب بیٹھنے والے افراد کا انتخاب کر نے والا میں نہیں ہوں وہ جگہ جن کے لئے تیار کی گئی ہے وہ انہی کے لئے جگہ محفوظ کر لی گئی ہے۔”
41 دوسرے دس شاگردوں نے اس بات کو سن کر یعقوب اور یوحنا پر غصّہ کیا۔
42 یسوع نے تمام شاگردوں کو ایک ساتھ بلا کر کہا ، “غیر یہودی کے وہ سردار جن کو لوگوں پر اختیار ہے اور ان اختیارات کو وہ لوگوں کو دکھانے کی کوشش کر تے ہیں۔ تم جانتے ہو کہ وہ قائدین لوگوں پر اپنی قوت کا اظہار کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اور انکے اہم قائدین لوگوں پر اپنے تمام اختیارات استعمال کر نے کی چاہت رکھتے ہیں۔
43 مگر تم میں ایسا نہیں ہے۔ بلکہ جو تم میں بڑا ہونا چا ہے وہ تمہارا خادم بنے۔
44 تم میں جو سب سے اہم بننے کی خواہش کرنے والا ہے وہ ایک غلام کی طرح تم سب کی خدمت کرے۔”
45 اسی طرح ابن آدم لوگوں سے خدمت لینے کے لئے نہیں آیا ہے بلکہ لوگوں کی خدمت کر نے کیلئے آیا ہے۔ ابن آدم خود اپنی جا ن دینے کے لئے آیا ہے۔ تا کہ لوگ بچ سکیں۔
( متّی۲۰:۲۹۔۳۴ ؛لوقا۱۸:۳۵۔ ۴۳)
46 تب وہ سب جریکو کے گاؤں میں آئے یسوع اپنے شاگردوں اور دیگر کئی لوگوں کے ساتھ اس گاؤں کو چھوڑ کر نکل رہے تھے۔ تومائی کا بیٹا برتمائی جو اندھا تھا۔ راستے کے کنارے پر بیٹھ کر بھیک مانگ رہا تھا۔
47 جب اس نے سنا کہ یسوع ناصری اس راستے سے گزرتا ہے تو اس نے چلا نا شروع کیا، “اے یسوع داؤد کے بیٹے مجھ پر کرم فرما۔”
48 کئی لوگوں نے اس اندھے کو ڈانٹا اور کہا، “خاموش رہ لیکن وہ اندھااور زور سے چلّا یا اے داؤد کے بیٹے! مجھ پر کرم فرما!”
49 یسوع نے رک کر کہا، “اس کو بلا ؤ” انہوں نے اندھے کو بلا یا اور کہا ، “خوش ہو کھڑا رہ کیوں کہ یسوع تجھ کو بلا رہا ہے۔”
50 وہ اندھا فوراً کھڑا ہو گیا اور اپنا اوڑھنا وہیں چھوڑکر یسوع کے پاس گیا۔
51 یسوع نے اس سے پوچھا ، “مجھ سے تو کیا چاہتا ہے؟” تب اس اندھے نے جواب دیا،“اے استاد! مجھے بصارت دو۔”
52 یسوع نے اس سے کہا، “جا تیرے ایمان کی وجہ سے تو شفا یاب ہوا” تب وہ شخص دوبارہ دیکھنے کے قابل ہوا۔ وہ یسوع کے پیچھے راہ میں چلنے لگا۔
1:4+یہ1:4یونانی لفظ ہے جس کے معنی ڈبونا ،ڈبونا یا آدمی کو دفن کرنا یا کوئی چیز پانی کے نیچے-1:16+اسکا1:16دُوسرا نام پطرس ہے-4:10+یسوع4:10نے اپنے لئے ان خا ص مددگاروں کو چن لیاتھا-5:9+لشکر5:9کے معنیٰ ۵۰۰۰ فوجوں کا فوجی دستہ5:20+دکُپلس5:20کے معنی دس گاؤں6:37+دوسو6:37دینار ایک آدمی کوملنے والی سالانہ آمدنی کے برا بر، دینار مساوی ایک آدمی کے روز کی مزدوری۔