27
(مرقس ۱۵:۱؛ لوقا ۲۳:۱-۲؛ یوحنا۱۸:۲۸-۳۲)
1 دوسرے دن صبح تمام سردار کا ہن اور بڑے لوگوں کے بڑے قائدین ایک ساتھ ملے اور یسوع کو قتل کر نے کا فیصلہ کر لیا۔
2 وہ اس کو زنجیروں میں جکڑ کر گور نر پیلا طس کے پاس لے گئے اور اس کے حوالے کیا۔
(اعمال ۱:۱۸-۱۹)
3 یہوداہ نے دیکھا کہ انہوں نے یسوع کو مارنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہوداہ وہی تھا جس نے یسوع کو اسکے دشمنوں کے حوالے کیا تھا۔
4 جب یہوداہ نے دیکھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ اس نے اپنے کئے پر نہایت پچتایا۔ اس طرح وہ تیس چاندی کے سکّہ لیکر سردار کاہنوں اور بزرگوں کے پاس آیا۔ اور بے گناہ کو قتل کر نے کے لئے تمہارے حوالے کردیا ہے۔ یہودی قائدین نے جواب دیا، “ہمیں اسکی پر واہ نہیں! وہ تو تیرا معاملہ ہے ہمارا نہیں۔”
5 تب یہوداہ نے اس رقم کو ہیکل میں پھینک دیا اور وہاں سے جاکر خود ہی پھانسی لے لی۔
6 سردار کاہنوں نے ہیکل میں پڑے چاندی کے سکّے چنے اور کہا کہ وہ رقم جو قتل کے لئے دی گئی ہو اسکو ہیکل کی رقم میں شامل کر نا یہ ہماری مذہبی شریعت کے خلاف ہے۔”
7 اسلئے انہوں نے اس رقم سے“کمہار کا کھیت” نام کی زمین خرید لینے کا فیصلہ کیا۔ یروشلم کے سفر پر آنے و الے اگر کو ئی مرجائے تو ان کو اس کھیت میں دفن کر نا طے پایا۔
8 یہی وجہ ہے کہ اس کھیت کو آج بھی “خون کا کھیت” کہا جاتا ہے۔
9 اس طرح یرمیاہ نبی کی کہی ہوئی بات پوری ہوئی:
“انہوں نے تیس چاندی کے سکّے لے لئے۔ یہودیوں نے اس کی زندگی کی جو قیمت مقّرر کی تھی وہ یہی تھی
10 خدا وند نے مجھے جیسا حکم دیا تھا۔ اسکے مطابق انہوں نے چاندی کے تیس سکّوں سے کمہار کا کھیت خرید لیا۔”
( مرقس۱۵:۲-۵ ؛ لوقا ۲۳:۳-۵؛ یوحنا۱۸:۳۳-۳۸)
11 یسوع کو حاکم پیلا طس کے سامنے کھڑا کیا گیا پیلا طس نے اس سے پو چھا، “کیا تو یہودیوں کا بادشاہ ہے ؟” یسوع نے جواب دیا ، “ہاں تیرے کہنے کے مطابق وہ میں ہی ہوں۔”
12 سردار کاہنوں اور یہودیوں کے بڑے قائدین نے جب یسوع کی شکایت کی تو وہ خاموش تھا۔
13 اس وجہ سے پیلا طس نے یسوع سے پو چھا، “لوگ تیرے تعلق سے جو شکایت کر رہے ہیں انکو سنتے ہو ئے تو جواب کیوں نہیں دیتا ؟”
14 اس کے باوجود یسوع نے پیلا طس کو کو ئی جواب نہیں دیا۔ اور پیلا طس کو اس بات سے بہت تعجب ہوا۔
(مرقس۱۵:۶-۱۵؛لوقا۲۳:۱۳-۲۵؛ یوحنا۱۸:۳۹-۱۹:۱۶)
15 ہر سال فسح کی تقریب کے موقع پر لوگوں کی خواہش کے مطابق حاکم کا کسی ایک قیدی کو چھوڑنا اس زمانہ کا رواج تھا۔
16 اس دور میں ایک شخص قید خانہ میں تھا جو نہایت بد نام تصور کیا جاتا تھا۔معروف قیدی جیل میں تھا اسکا نام بربّا تھا۔
17 لوگ پیلاطس کی رہائش گاہ کے پاس جمع تھے۔ پیلاطس نے ان سے پوچھا ، “میں تمہارے لئے کس قیدی کو رہا کروں ؟ بربّا کو یا مسیح کہلا نے والے یسوع کو۔
18 پیلاطس جانتا تھا کہ لوگ یسوع کو حسد سے پکڑوائے ہیں۔
19 پیلاطس جب فیصلہ کے لئے بیٹھا ہوا تھا تو اسکی بیوی آئی اور ایک پیغام بھیجا۔ “اس آدمی کو کچھ نہ کر وہ مجرم نہیں ہے اسکے تعلق سے پچھلی رات میں خواب میں بہت تکلیف اٹھائی ہوں” یہی وہ پیغام تھا۔
20 لیکن سردار کاہنوں اور بزرگ یہودی قائدین نے بربّا کے چھٹکا رے کے لئے اور یسوع کو قتل کر نے کے لئے لوگوں کو اکسایا کہ وہ اس بات کی گزارش کر لیں۔
21 پیلاطس نے پو چھا، “میں تمہارے لئے کس کو رہا کروں ؟ بربا گویا یسوع کو لوگوں نے بربّا کی تائید میں جواب دیا۔”
22 پیلاطس نے کہا، “یسوع کو جو اپنے آپکو مسیح پکارتا ہے میں کیا کرو ں۔” لوگوں نے جواب دیا “اس کو صلیب پر چڑھا دو۔”
23 پیلا طس نے ان سے پو چھا، “تم اس کو صلیب پر چڑھا نے کیوں کہتے ہو اور اسکا کیا جرم ہے۔” لوگ اونچی آواز میں چیختے ہو ئے کہنے لگے “اسکو صلیب پر چڑھا دو۔”
24 “لوگوں کے خیالات کو بدلنا مجھ سے ممکن نہیں ہے۔ اس بات کو جا نتے ہوئے کہ لوگ فساد پر اتر آئے ہیں اسلئے پیلاطس نے تھوڑا سا پا نی لیا اور تمام لوگوں کے سامنے اپنے ہاتھوں کو دھو تے ہو ئے کہا، “میں اس آدمی کی موت کا ذمہ دار نہیں ہوں۔ کیوں کہ تم ہی لوگ ہو جو اسکی موت کا ذمہ دار ہو۔”
25 تمام لوگوں نے جواب دیا، “اس کی موت کے ہم ہی ذمہ دار ہیں۔ اور اسکی موت کے لئے بطور سزا کچھ مقّرر ہو تو اسکو ہم اور ہماری اولاد بھگت لیں گے۔”
26 تب پیلاطس نے بربّا کو رہا کیا اور یسوع کو کو ڑوں سے پٹوایا اور صلیب پر چڑھا نے کے لئے سپاہیوں کے حوالے کردیا۔
(مرقس ۱۵:۱۶-۲۰ ؛ یوحنا۱۹:۲-۳)
27 پیلا طس کے سپا ہی یسوع کو شاہی محل میں لے گئے۔ اور تمام سپا ہیوں نے یسوع کو گھیر لیا۔
28 اس کے کپڑے اتار دئیے اور اس کو قر مزی چو غہ پہنا یا۔
29 کانٹوں کی بیل سے بنا ہوا ایک تاج اس کے سر پر رکھا۔ اور اس کے دائیں ہا تھ میں چھڑی دی۔ تب سپا ہی یسوع کے سامنے جھک گئے۔ اور یہ کہتے ہو ئے مذاق کر نے لگے ، “تجھ پر سلام ہوا ے یہودیوں کے بادشاہ۔”
30 سپاہیوں نے یسوع پر تھو کا تب اس کے ہاتھ سے وہ چھڑی چھین لی۔ اور اس کے سرپر مار نے لگے۔
31 اس طرح مذاق اڑا نے کے بعد اس کا چوغہ نکا ل دئیے اور اس کے کپڑے دوبارہ اسے پہنا دئیے اور صلیب پر چڑھا نے کے لئے لے گئے۔
(مرقس۱۵:۲۱-۳۲؛ لوقا۲۳:۲۶-۴۳؛یوحناّ۱۹:۱۷-۲۷)
32 سپا ہی یسوع کے ساتھ شہر سے با ہر جا رہے تھے۔سپا ہیوں نے زبردستی ایک اور شخص کو یسوع کے لئے صلیب اٹھا نے پر زور دیا۔ اس کا نام شمعون تھا جو کرینی سے تھا۔
33 وہ گلگتا کی جگہ پہنچے۔(گلگتا جس کے “معنی کھوپڑی کی جگہ ”)
34 سپا ہیوں نے گلگتا میں اس کوپینے کے لئے مئے دی۔اور اس مئے میں درد دور کر نے کی دوا ملا ئی گئی تھی۔ یسوع نے مئے کا مزہ چکھا لیکن اسے پینے سے انکار کردیا۔
35 سپاہیوں نے یسوع کو صلیب پر کیل سے ٹھونک دیا۔ پھر اسکی پوشاک حاصل کر نے کے لئے آپس میں قرعہ اندازی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
36 جبکہ سپاہی یسوع کی پہرہ داری کر تے ہو ئے وہیں پر بیٹھے رہے۔
37 اس کے علا وہ اس پر جو الزام تھو پا گیا تھا اس الزام کو لکھ کر اس کے سر پر لگایا گیا۔ اور وہ الزام یہی تھا: “یہ یسوع ہے جو یہودیوں کا بادشاہ ہے۔”
38 یسوع کے پہلو میں دو چوروں کو بھی صلیب پر چڑھایا گیا تھا۔ ایک چور کو اسکی داہنی جانب اور دوسرے کو بائیں جانب مصلوب کیا گیا
39 راستے پر گزرنے والے لوگ سر ہلا تے ہوئے اسکا ٹھٹھا کر تے رہے۔
40 “اور کہتے ،تو نے کہا کہ ہیکل کو منہدم کر سکے گا۔ اور تین دنوں میں دوبارہ تعمیر کریگا۔ بس خود کو بچا! اگر تو حقیقت میں خدا کا بیٹا ہے تو صلیب سے نیچے اتر کر آجا۔”
41 کاہنوں کے رہنما معلمین شریعت اور معزز یہودی قائدین وہاں پر موجود تھے۔ وہ بھی دیگر لوگوں کی طرح یسوع کا ٹھٹھا کر نے لگے۔
42 وہ کہتے تھے اس نے دوسرے لوگوں کو بچا یا۔ لیکن خود کو بچا نہیں سکا! لوگ کہتے ہیں کہ یہ اسرائیل کا بادشاہ ہے۔ اگر یہ بادشاہ ہے تو اس کو چاہئے کہ یہ صلیب سے نیچے اتر کر آئے تب ہم اس پر ایمان لائیں گے۔
43 اس نے خدا پر بھروسہ کیا اسلئے خدا ہی اب اسکو بچائے اگر واقعی خدا کو اسکی ضرورت ہو۔ وہ خود کہتا ہے “میں خدا کا بیٹا ہوں۔”
44 اس طرح یسوع کی داہنی اور بائیں جانب مصلوب کئے گئے چوروں نے بھی اسکے بارے میں بری باتیں کہیں۔
(مرقس۱۵:۳۳-۴۱؛ لوقا ۲۳:۴۴-۴۹؛ یوحنّا۱۹:۲۸-۳۰)
45 اس دن دوپہر بارہ بجے سے تین بجے تک ملک بھر میں اندھیرا چھا گیا تھا۔
46 تقریباً تین بجے کے وقت میں یسوع نے زور دار آواز میں چیختے ہو ئے کہا تھا کہ“ ایلی ایلی لما شبقتنی۔” “یعنی اے میرے خدا، اے میرے خدا مجھے اکیلا کیوں چھوڑ دیا؟”+ 27:47 اِقتِباس زبور ۱:۲۲
47 وہاں پر کھڑے چند لوگوں نے اسکو سن کر کہا یہ “ایلیاہ کو پکارتا ہے۔”
48 ان میں سے ایک دوڑے ہو ئے گیا اور اسپنچ لا یا اور اس میں سرکہ ڈبوکر بھر دیا اور اسکو ایک چھڑي سے باندھ دیا اور اسی چھڑی سے اسے اسپنچ کو یسوع کو دیا تا کہ وہ اسے پی لے۔
49 لیکن دوسرے لوگوں نے کہا، “اس کے بارے میں فکر مند نہ ہو ں کیوں کہ ہم یہ دیکھیں گے کہ کیا اسکی حفاظت کے لئے ایلیاہ آئیگا ؟”
50 تب یسوع پھر زور دار آواز میں چیخ کر جان دیدی۔
51 پھر ہیکل کا پر دہ اوپری حصّہ سے نیچے کی جانب پھٹ کر دو حصوں میں بٹ گیا۔ اور زمین دہل گئی اور پتھر کی چٹانیں ٹوٹ گئیں۔
52 قبریں کھل گئیں مرے ہو ئے کئی خدا کے لوگ قبروں سے زندہ ہو کر اٹھے۔
53 وہ لوگ قبروں سے باہر آئے یسوع پھر دوبارہ جی اٹھا اور وہ لوگ مقدس شہر کو چلے گئے۔ اور کئی لوگوں نے انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
54 سپہ سالار اور سپاہی جو یسوع کی نگہبانی کرر ہے تھے۔ زلزلہ اور چشم دید واقعات کو دیکھ کر گھبرا ئے اور کہنے لگے کہ“حقیقت میں وہ خدا کا بیٹا تھا۔”
55 کئی عورتیں جو گلیل سے یسوع کے پیچھے پیچھے اسکی خدمت کر نے کے لئے آئی ہو ئی تھیں دور سے کھڑی دیکھ رہی تھیں۔
56 مریم مگدلینی یعقوب اور یوسف کی ماں مریم اور یوحنا و یعقوب کی ماں بھی وہاں تھیں۔
( مرقس ۱۵:۴۲-۴۷؛ لوقا۲۳:۵۰-۵۶؛ یوحنا۱۹:۳۸-۴۲)
57 اس شام مالدار یوسف یروشلم کو آیا۔ یہ ارمتیاہ شہر کا باشندہ تھا وہ یسوع کا شاگرد تھا۔
58 یہ پیلا طس کے پاس گیا اور اس نے یسوع کی لاش اسکے حوالے کر نے کی گزارش کی۔ اور پیلا طس نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ یسوع کی لاش کو یوسف کے حوالے کریں۔
59 یوسف لاش کو لیکر اور اسکو نئے سوتی کپڑے میں لپیٹا۔
60 اور اس نے چٹان کے نیچے زمین میں جو قبر کھدوائی تھی اس میں رکھ دی۔ اور قبر کے منھ پر ایک بڑا پتھّر کو لڑکا کر چلا گیا۔
61 مریم مگدلینی اور ایک دوسری عورت مریم اس جگہ قبر کے قریب بیٹھی ہو ئی تھیں۔
62 اگلے روز جو تیاری کا دوسرا دن تھا گزر جانے کے بعد تمام سردار کاہن فریسی پیلاطس سے ملے۔
63 اور کہا کہ وہ دھوکہ باز جب زندہ تھا۔ اور کہا تھا، “تین دن بعد میں دوبارہ جی اٹھونگا یہ بات اب تک ہمیں یاد ہے۔
64 اس لئے تین دن تک اس قبر کی سختی سے نگرانی کا حکم دو اسلئے کہ اسکے شاگرد اس کی لاش کو چراکر لے جائیں۔ اور لوگوں سے یہ کہیں گے کہ وہ زندہ ہو کر قبر سے اٹھ گیا ہے۔ اور یہ پچھلا دھو کہ پہلے سے بھی برا ہو گا۔”
65 تب پیلاطس نے حکم دیا، “تم چند سپاہیوں کو ساتھ لے جاؤ اور جس طرح چاہتے ہو قبر پر پو ری چوکسی کے ساتھ نگرانی کرو۔”
66 وہ گئے اور قبر کے منھ پتھّر سے مہر کرکے سپاہیوں کی نگرانی میں وہاں پر سخت پہرہ بٹھا دیئے۔
1:16+جس1:16کے معنی مقدس پانی(مسیح) یا خدا کا منتخبہ۔1:18+یہ1:18خدا کی روح، مسيح کي روح، اور تسلي دينے والي روح بھي کہلاتي ہے۔ اور يہ روح خدا اور مسيح کے ساتھ دنیا میں رہنے والے لوگوں کے درمیان خدا کا کام کر تي ہے۔1:20+داؤدکے1:20خاندان سے آنے والا ۔ داؤد اسرائیل کا دوسرا بادشاہ تھا، اور مسیح کے پیدا ہونے کے ایک ہزار سال قبل بادشاہ تھا۔1:21+یسوع1:21نام کے معنی ہیں “نجات۔”2:3+ہیرو2:3(عظيم) يہوداہ کا پہلا حکمراں، ۴۴۰ قبل مسیح۔2:15+ہوسیع2:15۱:۱۱2:23+ایک2:23شخص ناصرت شہر کا رہنے والا۔ اس نام کا ممکنہ معنی “شاخ” ہو سکتاہے۔( دیکھیں یسعیاہ ۱:۱۱3:7+یہ3:7فریسی یہودی مذہبی گروہ ہے۔3:7+ایک3:7اہم یہودی مذہبی گروہ جو پرا نے عہد نامے کی صرف پہلے کی پانچ کتابوں کو ہی قبول کیا ہے اور کسی کے مر جانے کے بعد اسکا زندہ ہو نا نہیں مانتے۔3:10+جو3:10لوگ یسوع کو تسلیم نہیں کئے وہ “درختوں” کی طرح ہیں اور ان کو کاٹ دیا جائے گا۔3:12+یوحنّا3:12کے کہنے کا مطلب ہے یسوع اچھے لوگوں کو برے لوگوں میں سے الگ کر دیتا ہے۔3:13+یہ3:13یونانی لفظ ہے جسکے معنی’ ڈبونا ،یا آدمی کو دفن کرنا یا کوئی چیز پانی کے نیچے۔4:4+مقدس4:4تحریریں، قدیم عہد نامہ۔4:23+یہودی4:23عبادت گاہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں یہودی لوگ عبادت کرنے، تحریروں کو پڑھنے اور دوسرے عام مجمع لئے جمع ہوتے ہیں۔4:25+یونانی4:25لفظ “ڈکپُلس” یہ علاقہ گلیل تالاب کےمشرق کی طرف ہے۔ ایک زمانے میں یہاں دس گاؤں تھے۔5:33+خروج5:33۱۲:۱۹، گنتی ۲:۳۰، استثناء ۲۱:۲۳6:13+چند6:13یونانی نسخوں میں اس آیت کو شامل کیا گیا ہے۔“کیوں کہ حکومت، طاقت اور جلال ہمیشہ ہمیشہ تیرا ہی رہےگا۔” آمین۔8:20+یہ8:20نام یسوع خود اپنے لئےة استعمال کیا10:4+یہ10:4سیاسی گروہ یہودیوں سے تعلق رکھتاہے۔11:21+یہ11:21دونوں شہر گلیل تالاب کے قریب واقع ہيں جہاں یسوع لوگوں کو منادی دیا کر تا تھا۔11:21+ان11:21گاؤں کے نام ہیں جہاں بُرے لوگ رہا کرتے تھے۔16:14+اس16:14آدمی نے خدا کے متعلق تقریباً ۸۵۰ قبل مسیح میں باتیں کیں-16:14+اس16:14نے خداکے متعلق تقریباً ۶۰۰ سال قبل مسیح میں باتیں کیں۔16:18+سچ16:18مچ میں یہ’’ دوزخ کا دروازہ” ہے۔22:39+احبار22:39۱۸:۱۹25:15+ایک25:15توڑے کی قیمت تیس ہزار دینار ہوتی ہے۔ ایک دینار یعنی ایک آدمی کی ایک دن کی آمدنی۔